Thursday, 26 December 2013
Saturday, 28 September 2013
...بوندیں
بارش کی بوندوں کو دیکھا ہے ، جو خود تو مٹ جاتی ہیں پر بنجر زمین، خشک پتوں اور دریاؤں کو زندگی دے جاتی ہے ! جن کو دوبارہ زندگی ملتی ہے وہی اسکی قدر کرتے ہیں ، اور شکر ادا کرتے ہیں . پر بارش کی یہ بے جان ، بے وزنی ، فانی بوندیں اپنا نقش ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتی ہیں ... واہ کتنا انمول جذبہ ہے دوسروں کے دکھ درد کم کرنا ، خوشی بانٹنا ، چاہے خود فنا ہی کیوں نہ ہو جائیں . ان بارش کی بوندوں کو بھی شاید یہ حکم اس ذات پاک نے دیا ہے جس نے ہم انسانوں میں بھی ایسے بہت سے رم جم برسانے والے رکھے ہیں ! خشک دلوں میں زندگی کی امید جگاتے ہیں ، اداس چہروں پر مسکراہٹیں
بکھیرتے ہیں ... جو اپنی زندگی کا سب کچھ دوسروں کے نام کر کے ایثار و قربانی کا جذبہ زندہ رکھتے ہیں . ایسے تمام لوگ ہمیشہ دلوں میں زندہ رهتے ہیں . انکا بدلہ ہم میں سے کسی کے ذمہ نہیں اور نہ ہی یہ لوگ ہم سے تقاضا کرتے ہیں ... یہ تو بس الله کا وسیلہ ہوتے ہیں اور اسی سے جزا طلب کرتے ہیں ! اور بقول شاعر شاید الله پاک بھی اپنے بندوں کو یہی حکم دیتا ہے ،... " درد دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو ،
" ورنہ اطاعت کے لئے کم نہ تھے کروبیاں
Labels:
barish,
bondain,
care,
happiness,
jazba,
love,
rim jim,
tahir shafiq,
virsa e ishq
Tuesday, 2 April 2013
...کچھ الگ سہی
...کچھ الگ سہی
میری راہ گزر،میرے ہمسفر،میری منزلیں، کچھ الگ سہی
تو چلے کبھی، میرے ساتھ جو، ہو یہ سماء، کچھ الگ سہی
تو میرے لیے، میں تیرے لیے، پر ہیں ہم کچھ الگ سہی
تو شرم و حیاء میں سمٹا ہوا، میری عاجزی، کچھ الگ سہی
تو دور ہے، تو ہے پاس بھی، یہ احساس بھی، کچھ الگ سہی
ہو تجھے پتہ، تو نہ رہ سکے، اس احساس سے، کچھ الگ سہی
تجھے سوچنا، تجھے چاہنا، میری عادتیں، کچھ الگ سہی
تمنا تیری، ہے تیری جستجو، یہ میری عبادتیں، کچھ الگ سہی
تو مجھ میں بس رہا ہے یوں، خود مجھ کو میرا پتا نہیں
تیری خشبو سے مہک رہا ہو میں، اس طرح سے، کچھ الگ سہی
تو لوٹ آۓ، ہو مجھ کو یقین، گر ہو تجھے احساس بھی
نہ پھر ہو جدا، تو مجھ سے کبھی، کچھ اس طرح، کچھ الگ سہی
تو مسکراتا رہے سدا، رہے تو یوں ہی کھلا کھلا
یہ میری اک دعا، میری اک صدا، تیرے لیے، کچھ الگ سہی
( طاہر شفیق)
میری راہ گزر،میرے ہمسفر،میری منزلیں، کچھ الگ سہی
تو چلے کبھی، میرے ساتھ جو، ہو یہ سماء، کچھ الگ سہی
تو میرے لیے، میں تیرے لیے، پر ہیں ہم کچھ الگ سہی
تو شرم و حیاء میں سمٹا ہوا، میری عاجزی، کچھ الگ سہی
تو دور ہے، تو ہے پاس بھی، یہ احساس بھی، کچھ الگ سہی
ہو تجھے پتہ، تو نہ رہ سکے، اس احساس سے، کچھ الگ سہی
تجھے سوچنا، تجھے چاہنا، میری عادتیں، کچھ الگ سہی
تمنا تیری، ہے تیری جستجو، یہ میری عبادتیں، کچھ الگ سہی
تو مجھ میں بس رہا ہے یوں، خود مجھ کو میرا پتا نہیں
تیری خشبو سے مہک رہا ہو میں، اس طرح سے، کچھ الگ سہی
تو لوٹ آۓ، ہو مجھ کو یقین، گر ہو تجھے احساس بھی
نہ پھر ہو جدا، تو مجھ سے کبھی، کچھ اس طرح، کچھ الگ سہی
تو مسکراتا رہے سدا، رہے تو یوں ہی کھلا کھلا
یہ میری اک دعا، میری اک صدا، تیرے لیے، کچھ الگ سہی
( طاہر شفیق)
Sunday, 3 March 2013
Subscribe to:
Comments (Atom)



